آمنہ عتیق نامی اس خاتون کی خودکُشی کے بعد سوشل میڈیا پرخواتین کافی غم و غصے کا اظہار کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ سوشل میڈیا پر آکر اپنے رونے رونے والی خاتون کا کیریکٹر صحیح نہیں ہوتا، لیکن جب والد ہی دکھوں میں سر پر ہاتھ نہ رکھے تو عورت کہاں جائے؟ کہیں تو روئے گی۔ اور یہ بات صرف عورت کی نہیں بلکہ ایک مرد بھی ایسے حالات سے گزرے تو شایدوہ بھی اپنے اندر کا غم کہیں اور نکالے۔ خیر میں اس معاملے کا دوسرا رُخ نہیں جانتی، اس لیے اس معاملے پر بات کرنا شاید زیادتی ہوجائے، لیکن اس کیس کو لیکر معاشرے کے کچھ ٹیبُوز پر بات کی جارہی ہے، تو میں ان معاملات پر بات کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔
میں الحمدُ للہ ایک ایسے گھر سے تعلق رکھتی ہوں، جہاں میرے گھر کے مردوں کو بھی اتنی ہی نصیحتیں کی جاتی ہیں جتنی گھر کی ہم خواتین کو۔مجھ سمیت میرے بھائی کو بھی ی ہ سمجھایا جاتا ہے کہ عورت اور مرد کی عظمت کیا ہوتی ہے اور ساتھ ہی یہ کہ صبر کرنا صرف عورت کا کام نہیں، عورت کی طرح میاں بیوی کے رشتے کو چلانے کے لیے مرد کو بھی صبر کرتا ہے، اور میاں بیوی مل بانٹ کر وقت کی مشکلوں کو صبر و تحمل کے ساتھ گزارتے ہیں۔ صبر حالات کو لیکر کیا جاتا ہے، کسی کے تھپڑ کو کسی کی مار پیٹ کو صبر سے تشبیح دینا زیادتی ہے۔
میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں ایک ایسے گھر سے تعلق رکھتی ہوں جہاں ایک مرد کے ساتھ ساتھ ایک عورت کی بات کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جاتی ہے۔ مجھے فخر ہے میرے والدین پر جنہوں نے مجھےباطل کے خلاف بولنا سکھایا۔ جنہوں نےمجھے اس قابل بنایا کہ اسے بند دماغ معاشرے میں، میں پراعتماد ہوکر لوگوں کا بہادری سے سامنا کرتی ہوں۔ رات کو ایک بجے میرا بھائی بھی گھر آئے تو اسی طرح جوابدہ ہوتا ہے جیسے کہ میں۔
افسوس کی بات ہے کہ ہمارا گھٹن زدہ معاشرہ عورتوں کو کسی حال میں خوش نہیں رہنے دیتا، اُسے بات بات پر جج کیا جاتا ہے، ہر بات پر طعنے دیے جاتے ہیں، ایسے گھٹن زدہ معاشرے میں ، میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں میری فیملی کی طرف سے ایک آزاد لڑکی ہوں، اور یہ آزادی دنیا کی ہر لڑکی کا حق ہے۔عورتوں کے ساتھ اگر آزادی کا لفظ جوڑا جائے، تو ہمارے معاشرہ اس قدر بِلبلا اٹھتا ہے کہ جیسے عورت کی آزادی کا مطلب برہنہ ہو جانا ہے، جبکہ ایسا نہیں۔ ہر چیزمیں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے، کوئی بھی چیز اگر انتہا پسندی کی طرف جائے گی تو اس کے نقصانات ضرور ہونگے۔
خدا کےلیے اپنی عورتوں سے جینے کا حق نا چھینیں۔ عورت کو بیوی بنانے کے بعد جیل میں بند نا کردیں۔ اسے طاقت دیں، اس کی طاقت بنیں، اُسے دوسروں کے آگے لاچار اور بے بس نا دکھائیں۔ خواتین ہو یا مرد حضرات، بھی اس آزادی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔جو حق خدا نے آپکو دئے ہیں، اس کے لیے بات کریں، اس کے لیے بولیں۔ خواتین کو اگر ایسے بےیارو مددگار چھوڑ دیں گےتو شاید ہر لڑکی آمنہ عتیق بن جائے۔ پاکستان جیسے معاشرے میرے جیسے والدین کی وجہ سے چل رہے ہیں، ورنہ پتا نہیں، خواتین کا کیا حال ہوتا۔ میں اپنے والدین کا شکریہ ادا کرتی ہوں، کہ جس معاشرے میں انہوں نے مجھے بڑا کیا، اس معاشرے میں غلط اور صحیح کی پہچان بھی بتائی۔ اور مجھے ایک بھرپور آزاد زندگی گزارنے کا موقع دیا۔
This Guest post is written by Sehrish Mansoor for MediaSpringPK.
Sehrish Mansoor is broadcast journalist and news anchor currently associated with ARY News.
Leave a Reply