مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایک عورت پر ظالمانہ تشدد ہونے کے بعد یہ کیوںضروری ہے کہ یہ تشدد میڈیکل رپورٹ کی صورت میں اس عورت کے حق میں بطور گواہی پیش ہو، آپ کسی ایک بندے کو ایک تھپڑ مار دیں تو اس تذلیل کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔
عورت پر بہیمانہ تشدد کوئی نئی بات نہیں، نہ ہی یہ ماڈرن فیشن ہے۔ قدیم زمانے سے لیکر آج کی دنیا تک ہر عہد میں مرد یہ فریضہ انجام دیتے آئے ہیں اور فخر سے اپنے ان کارناموں کی تفصیل بتاتے تھکتے نہیں۔ عورتوں پر تشدد اور ستم درد ناک المیہ ہے۔ تشدد کی یہ لہر چار دیواری سے اٹھتی ہے اور کچھ بے حس تو سربازار عورتوں کو پیٹنا فخر سمجھتے ہیں۔ ابھی کل ہی ایک معروف اداکار اور ڈی جے نے اپنی بیوی پر تشدد کی انتہا کردی۔ دونوں کے مابین وجہ تنازعہ اداکار کی بے وفائی اور غیر عورتوں سے تعلقات تھی۔
موصوف آج کل ایک نجی ٹیلی ویژن کے کامیاب شو میں ڈی جے کے فرائض انجام دے رہے ہیں،اس کے علاوہ ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھاتے ہیں۔یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ جب بھی کوئی ایسی صورتحال سامنے آتی ہے تو سب سے پہلے خاتون کو بدکردار، بدچلن اور بدزبان قرار دے کر قصور وار ٹھہرا دیا جاتا ہے اور پھر مرادنگی کی آڑ میں مارپیٹ کی جاتی ہے اور خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے۔ کیا یہ عورت محض ایک عورت ہے۔ کیا اسے صرف شو پیس سمجھا جاتا ہے۔ کیا وہ ماں نہیں، کیا وہ بہن نہیں کیا وہ بیٹی نہیں اور کیا وہ بیوی نہیں اور سب سے بڑھ کر کیا وہ انسان نہیں۔ اس کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس کی قسمت میں گالیاں، بے جا پابندیاں اور ظالمانہ رویے ہی رہ گئے ہیں۔ اس کے ساتھ بھیڑ بکریوں والا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ان کی تجارت کی جاتی ہے۔ غیرت کے نام پر قتل سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ جنسی زیادتی کو مرد اپنا حق سمجھتے ہیں۔
بطور عورت میں نے اس اداکار کی غنڈہ گردی اور جنونیت کو دیکھا تو کانپ کے رہ گئی۔ اداکار کی بیوی فاطمہ سہیل کی تصاویر دیکھیں تو چہرے پر تھپڑوں گھونسوں اور نوچنے کے نشانات واضح ہیں۔ اس نیل زدہ چہرے کو دیکھ کر اس کے کرب کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔ فاطمہ سہیل جو اس ظلم کا شکار ہوئیں ان کے ساتھ دوہرا عذاب یہ اترا کہ لوگوں نے سوشل میڈیا پر کئی سوال اٹھا دئیے۔یہاں بہت سی سیلیبرٹیز نے اس اداکار کے خلاف اور فاطمہ کے حق میں پوسٹیں کیں ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا کسی مرد کا اس طرح کا تشدد جائز قرار دینا درست ہو گا؟ لالی وڈ اداکارہ ماہرہ خان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کمال لکھا کہ” کیا کوئی کسی کو یہ حق دیتا ہے کہ اس پر یا کسی اور پر ہاتھ اٹھایا جائے؟ یہ ناقابل معافی جرم ہے، ہم سب اس طرح کے تشدد کے واقعات کو بہت معمولی سمجھتے ہیں، خدارا اپنے بچوں کے لیے ہی سہی اسے روکیں“اداکارہ دعا ملک نے انسٹاگرام پر پوسٹ شیئر کی جس میں انہوں نے کہا کہ میں اس واقعے کی واحد گواہ ہوں اور میں یہ راز 3 سال سے اپنے دل میں رکھ کے بیٹھی ہوئی تھی، اف خدایا،مرد کو اس قدر ظالم کیوں بنایا گیا۔
https://twitter.com/MediaSpringPk/status/1154359421310590977?s=20
کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ خواتین انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہیں۔ جبکہ زمانہ جاہلیت میں عورت کے لئے کوئی قابل ذکر حقوق نہ تھے، عورت کی حیثیت کو ماننا تو درکنار اسکومعاشرے میں زندہ بھی رہنے کاحق تک نہ تھا، معاشرے میں عورت کا مرتبہ و مقام ناپسندیدہ تھا، وہ مظلوم اور ستائی ہوئی تھی، اور ہر قسم کی بڑائی اور فضیلت صرف مردوں کے لئے تھی۔ حتی کہ عام معاملات زندگی میں بھی مرد اچھی چیزیں خود رکھ لیتے اور بے کارچیزیں عورتوں کو دیتے۔اگر آج بھی ایسا ہی ہے تو اس جاہلیت اور آج کے ماڈرن دور میں کیا فرق ہوا۔ یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایک عورت پر ظالمانہ تشدد ہونے کے بعد یہ کیوں ضروری ہےکہ یہ تشدد میڈیکل رپورٹ کی صورت میں اس عورت کے حق میں بطور گواہی پیش ہو۔ آپ کسی ایک بندے کو ایک تھپڑ مار دیں تو اس تذلیل کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ یہاں تو معاملہ دوہری نوعیت کا ہے، ایک چور اور دوسرے چتر والی بات ہوئی۔ فاطمہ سہیل نے اپنے شوہر کو رنگے ہاتھوں پکڑا اور شوہر کے ساتھ پکڑی جان و الی ماڈل نے دھڑلے سے اپنے تعلقات کا اعتراف کیا۔ اس پر اداکار و ڈی جے تڑپ اٹھے اور وحشی ہو کر اپنی بیوی کو مارنے پیٹنے لگ گئے۔ سوشل میڈیا کے لوگوں کو شاید اندازہ نہیں کہ فاطمہ سہیل امریکا سے پڑھی لکھی لڑکی ہے، جس نے پاکستانی میڈیا میں اپنا مقام بنایا۔ فاطمہ کی ایک بہن ایک کامیاب اینکر پرسن ہیں۔ ان کے بہنوئی ملک کے معروف قانون دان ہیں۔ ان کا تعلق ایک مہذب اور پڑھی لکھی فیملی سے ہے، جہاں تہذیب و تربیت کو اوّلین فرض سمجھا جاتا ہے۔ جس لڑکی نے اپنے میاں کی خاطر اپنا کیرئر تباہ کر لیا اور مکمل طور پر گھریلو لڑکی بن کر زندگی گزارنے پر آمادہ ہو گئی ہو، اس کی اس قربانی کا صلہ یہ ملا ہے کہ شوہر سرعام عشق معاشقے لڑاتا پھر رہا ہے اور اسے کوئی کچھ کہنے والا نہیں۔
فاطمہ سہیل کے کردار پر انگلی اٹھانے والے ذرا ایک لمحہ کے لیے تصور کریں کہ اگر یہی واقعہ ان کی کسی بیٹی بہن کے ساتھ ہوا ہوتا تو ان پر کیا گزرتی۔ فاطمہ سہیل پر ایک سوال یہ اٹھایا ہے کہ اگر یہ ظلم چل رہا تھا تو اس کی نشاندہی پہلے کیوں نہ کی تو اس کا سادہ سا جواب فاطمہ نے مجہے میرے شو سٹی10@ میں دیا کہ جب سمجھوتہ ہی کرنا مطلوب ہو اور اسی گھر سے جنازہ نکالنے کا والدین کا ارمان پورا کرنا ہو تو کیسی شکایت، لیکن جب ظلم حد سے بڑھ جائے اور برداشت جواب دے جائے تو ایسے درندہ صنعت انسان کی اصلیت دنیا کے سامنے لانا ضروری ہو جاتا ہے۔ فاطمہ نے یہ قدم اس لیے اٹھایا کہ اس ظلم کے خلاف ایسی قوی تحریک شروع ہو کہ کوئی اور فاطمہ اس کا نشانہ نہ بن پائے۔ اداکار ڈی جے نے پریس کانفرنس میں یہ سوال اٹھایا کہ اس مرتبہ اس نے میڈیکل کیوں نہیں کروایا تو اس سوال میں یہ راز پنہاں نظر آیا کہ پچھلی مرتبہ تشدد کیا تھا اور فاطمہ کے نشان اور تصاویر سچی ہیں!
کیا اس ڈرامے باز اداکار کا یہ کہنا ہے کہ اس مرتبہ اس نے اس صفائی سے مارا کہ میڈیکل ہو نہیں سکتا؟؟
فاطمہ سہیل کی یہ کہانی صرف فاطمہ سہیل کی نہیں، بلکہ اس ملک کی لاکھوں بیٹیاں ایسی ہیں، جو روز تشدد کا نشانہ بنتی ہیں اور اسی گھر میں گزارہ کرتی ہیں۔ ایسے ذہنی مریض مردوں کے لیے میدان کھلا چھوڑنے کی بجائے ان کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ فاطمہ سہیل کے ظالم شوہر کو ذہنی مریض کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ موصوف نے احسن خان کے شو میں خود پر اعتراف کیا تھا کہ مجھے غصہ بہت آتا ہے اور میں غصے میںجاہل ہو جاتا ہوں اور پھر مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کیا کر رہا ہوں،اس جمن میں مجھے ماہر نفسیات سے بھی مدد لینا پڑی تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے ذہنی مریض کی غصے میں مارنے پیٹنے کی خواہش پوری کرنے کے لیے فاطمہ ہی تشدد کا نشانہ کیوں بنے۔ اس اداکار نے ایک مرتبہ انسٹاگرم پر خودکشی کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا جس پر شدید ردّعمل کے بعد اسے یہ پوسٹ ہٹانا پڑی۔عو رت حوا ہے، حوا کی بیٹی ہے جو کہ انسا نی نسل بڑ ھا نے کی ذ مہ دار ہے، عو رت مر یم ہے جو پا گیز گی و معصو میت کا شا ہکا ر ہے، عورت ز ہرا ہے جو اپنے حق کی خا طر ستم و تشد د کے خلا ف آواز اٹھا نے کی طا قت رکھتی ہے، عو رت زینب ہے ،ہر دور کی ضرورت و بنیا د ہے ،عورت کے دم سے ہی قو یں تر قی کر تی ہیں، عو رتوں پر ظلم و ستم نا صر ف سما جی و قا نو نی لحا ظ سے بھی ایک اور ایک غیر اخلا قی اصولو ں کے خلا ف ہے۔
News Anchor and morning show host @hashmi_seemal shares her take on #Mohsinabbashaider case.
#SayNoToViolence #SayNoToIntimidation #TimesUp pic.twitter.com/VCNvVoWx6p
— MediaSpring PK (@MediaSpringPk) July 21, 2019
روز بروز خواتین پر گھریلو تشدد کے ایسے واقعات کا رونما ہونا قانون کی کمزور گرفت کی بھی علامت ہے۔جبکہ کچھ ظالموں کو بچانے کے لیے تو پولیس اپنا کردار ادا کرتی ہے، اور کچھ عدالتی نظام میں کمزوریوں کی بناہ پر رہا ہوجاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے گھناو ¿نے واقعات کی روک تھام کے لئے مجرموں کو سرعام عبرتناک سزائیں دی جائیں ، جب ایک مجرم کو سزا نہیں ملتی تو اسے شہ مل جاتی ہے اور وہ پھر ظلم و بربریت کرتاہے۔
انسانی حقوق کے نمائندے اور ماہرین یہ باور کرواتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں خواتین پر تشدد کے خاتمے اور ان کے حقوق کے لیے مردوں میں ان مسائل کا ادراک اجاگر اور انہیں اس مہم کا حصہ بنائے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔تعلیم کو عام کرکے عورتوں کے حقوق کے بارے میں نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کو بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ حکومتی اور سماجی سطح پرخواتین کے نہ صرف جنسی اور جسمانی تشدد بلکہ ذہنی اذیت کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات ناگزیر ہیں کہ آخر کب تک حوا کی بیٹی ظلم وجبر کا نشانہ بنتی رہے گی۔
پاکستان میں گزشتہ 5برس میں 15ہزار خواتین تشدد سے لقمہ اجل بن گئیں۔ایک فلاحی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2015میں دس ہزار سے زائد خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔کم عمری میں زچگی یا تیزاب پھینکنے کے باعث جاں بحق ہونے والی خواتین کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سال 860 کیسزکارو کاری کے ، 481گھریلو تشدد ،90تیزاب سے جلانے کے، 344 زیادتی اور 268کیسز جنسی طور پر ہراساں کرنے کے رپورٹ کیے گئے۔ صنفی عدم مساوات کے انڈیکس میں شامل 140ممالک میں پاکستان کا نمبر 115واں ہے۔
انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے لیے آواز اٹھانے والے معروف ایڈوکیٹ ضیاءاحمد اعوان کے مطابق خواتین کے حالات میں بہتری نہ آنے کی ایک بڑی وجہ ملک میں خواتین سے متعلق معاملات کا حکومت کی ترجیحات میں شامل نہ ہونا ہے، صرف یہ ہی دیکھ لیں کہ ملک میں کتنی ورکنگ وویمن سامنے آرہی ہیں، ان کے تحفظ کے لیے کوئی ایسے بڑے اقدامات نہیں ہو رہے اور نہ ہی مجموعی سطح پر خواتین کے خلاف پ ±ر تشدد ذہنیت کا خاتمہ نظر نہیں آرہا اور نہ ہی کوئی تبدیلی نظر آرہی ہے۔ وجہ یہ ہی ہے کہ ہم اس ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام نہیں کر رہے۔“
اس کے باوجود اگر بجٹ دیکھ لیں تو اس میں خواتین کے لیے کچھ نہیں ہے اور ان کے لیے جو ادارے بنے ہیں وہ صرف تنخواہوں، بلوں اور گاڑیوں کے لیے پیسے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی کوئی خدمات نہیں ہیں۔ پھر یہ ادارے جواب دہ نہیں ہیں۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ انہوں نے اپنی خدمات کتنے لوگوں کو فراہم کیں یا جو بجٹ تھا وہ کہاں خرچ ہوا۔ لہذا جب تک ان کے نظام کو تبدیل نہیں کیا جائے گا، خواتین کے حوالے سے بہتری نظر نہیں آئے گی۔“
Leave a Reply